EN हिंदी
عہد حاضر کی دل ربا مخلوق | شیح شیری
ahd-e-hazir ki dil-ruba maKHluq

نظم

عہد حاضر کی دل ربا مخلوق

شہریار

;

زرد بلبوں کے بازوؤں میں اسیر
سخت بے جان لمبی کالی سڑک

اپنی بے نور دھندلی آنکھوں سے
پڑھ رہی ہے نوشتۂ تقدیر

بند کمروں کے گھپ اندھیروں میں
بلیاں پی رہی ہیں دودھ کے جام

ہوٹلوں سینما گھروں کے قریب
چمچاتی ہوئی نئی کاریں

اور پنواڑیوں کی دوکانیں
اور کچھ ٹولیاں فقیروں کی

پرس والوں کے انتظار میں ہیں
ادھ پھٹے پوسٹروں کے پیراہن

آہنی بلڈنگوں کے جسموں پر
کتنے دل کش دکھائی دیتے ہیں

بس کی بے حس نشستوں پر بیٹھی
دن کے بازار سے خریدی ہوئی

آرزو غم امید محرومی
نیند کی گولیاں گلاب کے پھول

کیلے امردو سنترے چاول
پینٹ گڑیا شمیز چوہے دان

ایک اک شے کا کر رہی ہے حساب
عہد حاضر کی دل ربا مخلوق!