EN हिंदी
ابو الہول | شیح شیری
abul-haul

نظم

ابو الہول

ضیا جالندھری

;

جہان ریگ کے خواب گراں سے آج تو جاگ
ہزاروں قافلے آتے رہے گزرتے رہے

کوئی جگا نہ سکا تجھ کو تجھ سے کون کہے
وہ زیست موت ہے جس میں کوئی لگن ہو نہ لاگ

تڑپ اٹھے ترے ہونٹوں پہ کاش اب کوئی راگ
جو تیرے دیدۂ سنگیں سے درد بن کے بہے

یہ تیری تیرہ شبی بجلیوں کے ناز سہے
یوں ہی سلگتی رہے تیرے دل میں زیست کی آگ

مگر نہیں، تو اگر میرا راز داں ہوتا
ترے لبوں پہ دہک اٹھتی کوئی پیار کی بات

تو آج دہر کے سینے پہ تو کہاں ہوتا
ترے سکوں کو کبھی چھو سکا نہ وقت کا ہات

خود اپنی آگ ہی میں جل بجھی ہے میری حیات
وگرنہ تیری طرح میں بھی جاوداں ہوتا