EN हिंदी
ابدیت | شیح شیری
abdiyat

نظم

ابدیت

بشر نواز

;

اور پھر دونوں فانوس سینے کے بجھ جائیں گے
اوڑھ لے گی دھواں

دودھ کی دھار کی طرح اجلی نظر
ناخن پا سے زلفوں کے بادل تلک

جگمگاتی ہوئی کھال سے
خواہشوں کے پراسرار محمل تلک

ایک تحریر لکھے گی دیمک
فنا

ہر طرف بے حسی
تیرگی تیرگی

ہاں مگر صرف رخسار و لب
صرف رخسار و لب راکھ میں دابی چنگاریوں کی طرح

جگمگائیں گے
ان پر مرے اور ترے گرم بوسوں کی تحریر ہے

زندگی
اور پھر

وقت کی لمحہ لمحہ ابھرتی ہوئی سخت دیوار گر جائے گی
اور اپنے بدن

اور معمولی ناموں میں تحلیل ہو جائیں گے
نور کا پیڑ بن جائیں گے

آنے والے نئے موسموں کی ہوا
ہو کے شاخوں سے گزرے گی اور

آسمانی صداؤں میں گایا ہوا
ایک لا فانی و بیکراں گیت گونجے گا

اور گونجتا ہی رہے گا سدا
اور گونجتا ہی رہے گا سدا