EN हिंदी
آرزو | شیح شیری
aarzu

نظم

آرزو

شہریار

;

سوتے سوتے چونک اٹھی جب پلکوں کی جھنکار
آبادی پر ویرانے کا ہونے لگا گمان

وحشت نے پر کھول دیے اور دھندلے ہوئے نشان
ہر لمحے کی آہٹ بن گئی سانپوں کی پھنکار

ایسے وقت میں دل کو ہمیشہ سوجھا ایک اپائے
کاش کوئی بے خواب دریچہ چپکے سے کھل جائے