EN हिंदी
آنسو | شیح شیری
aansu

نظم

آنسو

ضیا جالندھری

;

سنو، سنو، آنسوؤں کی آواز روح کو اپنے دکھتے
ہاتھوں سے چھو رہی ہے

خزاں زدہ خشک پتیاں ہیں
جو سطح آب رواں پہ رک رک کے گر رہی ہیں

وہ سطح آب آئینہ ہے جس میں
گزشتہ لمحوں کے ملگجے نقش ابھر رہے ہیں

ان آئینہ رنگ آنسوؤں میں
ہر آرزو ہر خیال ہر یاد ایک تصویر بے کسی ہے

شفق کے بجھتے الاؤ میں راکھ کی تہیں راکھ میں شرارے
یہ کس کے آنسو ہیں کون چپ چاپ رو رہا ہے

اداس شب کی سیاہ آنکھوں میں ڈبڈباتے ہوئے
ستاروں سے میں نے پوچھا

مگر تعجب زدہ مجھے دیکھتے رہے وہ
ہواؤں کی سسکیوں سے پوچھا

وہ اپنا دامن سمیٹ کر میرے پاس سے کپکپا کے چل دیں
مگر یہ آنسو لہکتے لمحوں کے آئنے ہیں

ان آنسوؤں میں
ہر آرزو ہر خیال ہر یاد پھر سے آباد ہو گئی ہے

دمکتے آنسو یہ قمقمے جن سے شب کی تاریکیاں اجالے
ان آئینہ رنگ آنسوؤں سے نظر ملاؤ

مجھے نہ دیکھو
کہ میری آنکھوں میں تو کوئی آئینہ نہیں ہے

سنو سنو آنسوؤں کی آواز سارے عالم پہ چھا رہی ہے
مگر میں کب سے ترس رہا ہوں

کہ میری پتھرائی خشک آنکھوں سے بھی کچھ آنسو
ابھرتی لہروں کی طرح ابھریں

اور ان کی حدت میں ڈھل کے بہہ جائے میرے سینے
کا درد سنگیں