EN हिंदी
آمادگی | شیح شیری
aamadgi

نظم

آمادگی

اختر الایمان

;

ایک اک اینٹ گری پڑی ہے
سب دیواریں کانپ رہی ہیں

ان تھک کوششیں معماروں کی
سر کو تھامے ہانپ رہی ہیں

موٹے موٹے شہتیروں کا
ریشہ ریشہ چھوٹ گیا ہے

بھاری بھاری جامد پتھر
ایک اک کر کے ٹوٹ گیا ہے

لوہے کی زنجیریں گل کر
اب ہمت ہی چھوڑ چکی ہیں

حلقہ حلقہ چھوٹ گیا ہے
بندش بندش توڑ چکی ہیں

چونے کی اک پتلی سی تہ
گرتے گرتے بیٹھ گئی ہے

نبضیں چھوٹ گئیں مٹی کی
مٹی سے سر جوڑ رہی ہے

سب کچھ ڈھیر ہے اب مٹی کا
تصویریں وہ دل کش نقشے

پہچانو تو رو دو گی تم
گھر میں ہوں باہر ہوں گھر سے

اب آؤ تو رکھا کیا ہے
چشمے سارے سوکھ گئے ہیں

یوں چاہو تو آ سکتی ہو
میں نے آنسو پونچھ لیے ہیں