EN हिंदी
آخری سانس | شیح شیری
aaKHiri sans

نظم

آخری سانس

شہریار

;

شمع کی لو نے جب آخری سانس لی
آخر شب

نگاہوں سے گرنے لگی اوس
پہلو بدلنے لگی

راہ کی جاگتی گرد
سونے لگی رات

اور خامشی گیت بننے لگی
نقش بے خواب چلنے لگے

حال و ماضی کہیں آنکھ ملنے لگے
منزلوں کے نشاں چیختے رہ گئے