EN हिंदी
آخری رات | شیح شیری
aaKHiri raat

نظم

آخری رات

کیفی اعظمی

;

چاند ٹوٹا پگھل گئے تارے
قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے رات

پلکیں آنکھوں پہ جھکتی آتی ہیں
انکھڑیوں میں کھٹک رہی ہے رات

آج چھیڑو نہ کوئی افسانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

کھلتے جاتے ہیں سمٹے سکڑے جال
گھلتے جاتے ہیں خون میں بادل

اپنے گلنار پنکھ پھیلائے
آ رہے ہیں اسی طرف جنگل

گل کرو شمع، رکھ دو پیمانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

شام سے پہلے مر چکا تھا شہر
کون دروازہ کھٹکھٹاتا ہے

اور اونچی کرو یہ دیواریں
شور آنگن میں آیا جاتا ہے

کہہ دو ہے آج بند مے خانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

جسم ہی جسم ہیں، کفن ہی کفن
بات سنتے نہ سر جھکاتے ہیں

امن کی خیر، کوتوال کی خیر
مردے قبروں سے نکلے آتے ہیں

کوئی اپنا نہ کوئی بیگانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

کوئی کہتا تھا، ٹھیک کہتا تھا
سرکشی بن گئی ہے سب کا شعار

قتل پر جن کو اعتراض نہ تھا
دفن ہونے کو کیوں نہیں تیار

ہوشمندی ہے آج سو جانا
آج کی رات ہم کو سونے دو