EN हिंदी
آج کی باتیں کل کے سپنے | شیح شیری
aaj ki baaten kal ke sapne

نظم

آج کی باتیں کل کے سپنے

قتیل شفائی

;

جب بھی تنہا مجھے پاتے ہیں گزرتے لمحے
تیری تصویر سی راہوں میں بچھا جاتے ہیں

میں کہ راہوں میں بھٹکتا ہی چلا جاتا ہوں
مجھ کو خود میری نگاہوں سے چھپا جاتے ہیں

میرے بے چین خیالوں پہ ابھرنے والی
اپنے خوابوں سے نہ بہلا میری تنہائی کو

جب تری سانس مری سانس میں تحلیل نہیں
کیا کریں گی مری بانہیں تیری انگڑائی کو

جب خیالوں میں ترے جسم کو چھو لیتا ہوں
زندگی شعلۂ ماضی سے جھلس جاتی ہے

جب گزرنا ہوں غم حال کے ویرانے سے
میرے احساس کی ناگن مجھے ڈس جاتی ہے

ہم سفر تجھ کو کہوں یا تجھے رہزن سمجھوں
راہ میں لا کے مجھے چھوڑ دیا ہے تو نے

ایک وہ دن کہ ترا پیار بسا تھا دل میں
ایک یہ وقت کہ دل توڑ دیا ہے تو نے

ماضی و حال کی تفریق وہ قربت یہ فراق
پیار گلشن سے چلا آیا ہے زندانوں میں

بے زری اپنی صداقت کو پرکھتی ہی رہی
تل گیا حسن زر و سیم کی میزانوں میں

غیر سے ریشم و کمخواب کی راحت پا کر
تو مجھے یاد بھی آئے گی تو کیا آئے گی

ایک مستقبل زریں کی تجارت کے لیے
تو محبت کے تقدس کو بھی ٹھکرائے گی

اور میں پیار کی تقدیس پہ مرنے والا
درد بن کر ترے احساس میں بس جاؤں گا

وقت آئے گا تو اخلاص کا بادل بن کر
تیری جھلسی ہوئی راتوں پہ برس جاؤں گا