EN हिंदी
آدمی کی تلاش | شیح شیری
aadmi ki talash

نظم

آدمی کی تلاش

ندا فاضلی

;

ابھی مرا نہیں زندہ ہے آدمی شاید
یہیں کہیں اسے ڈھونڈو یہیں کہیں ہوگا

بدن کی اندھی گپھا میں چھپا ہوا ہوگا
بڑھا کے ہاتھ

ہر اک روشنی کو گل کر دو
ہوائیں تیز ہیں جھنڈے لپیٹ کر رکھ دو

جو ہو سکے تو ان آنکھوں پہ پٹیاں کس دو
نہ کوئی پاؤں کی آہٹ

نہ سانسوں کی آواز
ڈرا ہوا ہے وہ

کچھ اور بھی نہ ڈر جائے
بدن کی اندھی گپھا سے نہ کوچ کر جائے

یہیں کہیں اسے ڈھونڈو
وہ آج صدیوں بعد

اداس اداس ہے
خاموش ہے

اکیلا ہے
نہ جانے کب کوئی پسلی پھڑک اٹھے اس کی

یہیں کہیں اسے ڈھونڈو یہیں کہیں ہوگا
برہنہ ہو تو اسے پھر لباس پہنا دو

اندھیری آنکھوں میں سورج کی آگ دہکا دو
بہت بڑی ہے یہ بستی کہیں بھی دفنا دو

ابھی مرا نہیں
زندہ ہے آدمی شاید