EN हिंदी
بلند پیڑوں کے سبز پتوں میں سطح دریا کی سلوٹوں پر | شیح شیری
buland peDon ke sabz patton mein sath-e-dariya ki silwaTon par

نظم

بلند پیڑوں کے سبز پتوں میں سطح دریا کی سلوٹوں پر

ضیا جالندھری

;

بلند پیڑوں کے سبز پتوں میں سطح دریا کی سلوٹوں پر
ہوا کے جھونکوں سے دھوپ کے جھلملاتے تارے تھرک رہے ہیں

خنک ہوا جیسے کانچ کی تیز کرچیں رگ رگ کو چیرتی ہیں
خنک ہوا جیسے تلخ مے کائنات کے جسم میں رواں ہے

یہ کشتیاں برف سے ڈھکی نیلی چوٹیوں پر نظر جمائے
ہوا سے ٹکراتی سرد پانی کو کاٹتی بڑھتی جا رہی ہیں

یہ قہقہے شوخ شوخ باتیں یہ ہنستے چہروں کا ایک جھرمٹ
نظر نظر میں گداز کرنوں کی آنچ محسوس ہو رہی ہے

کسی کنارے کے تیرہ سایوں میں بھول آئے ہیں بار غم کو
وہ برف کی چوٹیاں نگاہوں کے دائروں میں بھر رہی ہیں

کہیں بہت دور چھوڑ آئے ہیں آج بے حس عمارتوں کو
جو اپنے سینے میں تیرگی کا دھواں دبائے سسک رہی تھیں

سلگتی چنگاریاں جہاں بڑھتی راکھ میں دب کے سو گئی تھیں
جہاں فسردہ غبار میں زندگی تو کیا موت بھی نہیں تھی

کہیں انہی چوٹیوں سے اب وہ عمارتیں پھر ابھر نہ آئیں