EN हिंदी
موت حیات کے شجر کا پھل ہے | شیح شیری
maut hayat ke shajar ka phal hai

نظم

موت حیات کے شجر کا پھل ہے

ذوالفقار احمد

;

موت حیات کے شجر کا پھل ہے
اسے بھی چکھ کر دیکھو

بہت کنارے دیکھ چکے
اب ندی سے مل کر دیکھو

خاک پہ اپنی تدبیروں سے
نقش بنائے کیا کیا

بہت چلے ان رستوں پر
اب ہوا میں چل کر دیکھو

اور بھی دشت ہیں اور بھی در ہیں
اس بستی سے میلوں باہر

ان جیسے ہی اور بھی گھر ہیں جن کے آنگن جلتے بجھتے
ایسے ہی کچھ شام و سحر ہیں

جن کی تلاش میں
سب در جھانکے

قریہ قریہ چڑھتے چاند اور ڈوبتے سورج
کوہ و دمن سب کھولے

شاید وہ بھی وہیں ملے اب
اس گھر چل کر دیکھو

موت حیات کے شجر کا پھل ہے
اسے بھی کچھ کر دیکھو