زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے
کل بھی تھا سینے پہ اک سنگ گراں آج بھی ہے
دل افسردہ کو پہلو میں لئے بیٹھے ہیں
بزم میں مجمع خستہ جگراں آج بھی ہے
تلخیٔ کوہ کنی کل بھی مرا حصہ تھا
جام شیریں بہ نصیب دیگراں آج بھی ہے
زخم دل کے نہیں آثار بظاہر لیکن
چارہ گر سے گلۂ درد نہاں آج بھی ہے
آج بھی گرم ہے بازار جفا کاروں کا
کل بھی آراستہ تھی ان کی دکاں آج بھی ہے
گوشۂ امن نہیں آج بھی بلبل کو نصیب
چشم صیاد بہر سو نگراں آج بھی ہے
آج بھی زخم رگ گل سے ٹپکتا ہے لہو
خوں میں ڈوبی ہوئی کانٹوں کی زباں آج بھی ہے
زندگی چونک کے بیدار ہوئی ہے لیکن
چشم و دل پر اثر خواب گراں آج بھی ہے
اس طرف جنس وفا کی وہی ارزانی ہے
اس طرف اک نگہ لطف گراں آج بھی ہے
حیف کیوں قسمت شاعر پہ نہ آئے عاجزؔ
کل بھی کمبخت رہا مرثیہ خواں آج بھی ہے
غزل
زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے
کلیم عاجز