EN हिंदी
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں | شیح شیری
zara si der ko aae the KHwab aankhon mein

غزل

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

افتخار عارف

;

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں

وہ جس کے نام کی نسبت سے روشنی تھا وجود
کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں

جنہیں متاع دل و جاں سمجھ رہے تھے ہم
وہ آئنے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں

عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے
وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں

مرے غزال تری وحشتوں کی خیر کہ ہے
بہت دنوں سے بہت اضطراب آنکھوں میں

نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے
یہ الجھنیں تری بے انتساب آنکھوں میں

جواز کیا ہے مرے کم سخن بتا تو سہی
بہ نام خوش نگہی ہر جواب آنکھوں میں