EN हिंदी
زخم دبے تو پھر نیا تیر چلا دیا کرو | شیح شیری
zaKHm dabe to phir naya tir chala diya karo

غزل

زخم دبے تو پھر نیا تیر چلا دیا کرو

پیرزادہ قاسم

;

زخم دبے تو پھر نیا تیر چلا دیا کرو
دوستو اپنا لطف خاص یاد دلا دیا کرو

ایک علاج دائمی ہے تو برائے تشنگی
پہلے ہی گھونٹ میں اگر زہر ملا دیا کرو

شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

مقتل غم کی رونقیں ختم نہ ہونے پائیں گی
کوئی تو آ ہی جائے گا روز صدا دیا کرو

جذبۂ خاک پروری اور سکون پائے گا
خاک کرو ہمیں تو پھر خاک اڑا دیا کرو