EN हिंदी
یوں جو پلکوں کو ملا کر نہیں دیکھا جاتا | شیح شیری
yun jo palkon ko mila kar nahin dekha jata

غزل

یوں جو پلکوں کو ملا کر نہیں دیکھا جاتا

ذوالفقار عادل

;

یوں جو پلکوں کو ملا کر نہیں دیکھا جاتا
ہر طرف ایک ہی منظر نہیں دیکھا جاتا

کام اتنے ہیں بیابانوں کے ویرانوں کے
شام ہو جاتی ہے اور گھر نہیں دیکھا جاتا

جھانک لیتے ہیں گریباں میں یہی ممکن ہے
ایسی پستی ہے کہ اوپر نہیں دیکھا جاتا

جس کو خوابوں کو ضرورت ہو اٹھا کر لے جائے
ہم سے اب اور یہ دفتر نہیں دیکھا جاتا