EN हिंदी
یہ شور و شر تو پہلے دن سے آدم زاد میں ہے | شیح شیری
ye shor-o-shar to pahle din se aadam-zad mein hai

غزل

یہ شور و شر تو پہلے دن سے آدم زاد میں ہے

ذالفقار احمد تابش

;

یہ شور و شر تو پہلے دن سے آدم زاد میں ہے
خرابی کچھ نہ کچھ تو اس کی خاک و باد میں ہے

پہنچ کر اس جگہ اک چپ سی لگ جاتی ہے مجھ کو
مقام اک اس طرح کا بھی مری روداد میں ہے

عجب اک بے کلی سی میرے جسم و جان میں ہے
صفت سیماب کی مجھ پیکر اضداد میں ہے

یہ شیشہ گھر ابھی تک عرصۂ تکمیل میں ہے
یہ خواب خوب صورت معرض ایجاد میں ہے

میں جتنا اٹھ رہا ہوں اور جھکتا جا رہا ہوں
کجی دراصل اول سے مری بنیاد میں ہے

زمانہ یوں نہیں جیسے دکھائی دے رہا ہے
خرابی کوئی ماہ و سال کی تعداد میں ہے

طریق عشق میں کوئی خرابی آ گئی ہے
کوئی بد صورتی اس طرز نو ایجاد میں ہے

یہ نقش خوش نما دراصل نقش عاجزی ہے
کہ اصل حسن تو اندیشۂ بہزاد میں ہے

یہاں جو آ گیا اک بار پھر جاتا نہیں ہے
کشش ایسی کچھ اس شہر ستم ایجاد میں ہے

وہ جو کہتے رہے اس کی گواہی مل رہی ہے
یہ ساری گفتگو ان رفتگاں کی یاد میں ہے

یہ جتنا ہے کہیں اس سے زیادہ بھید میں ہے
طلسم اس دہر کا پوشیدہ ہفت ابعاد میں ہے