EN हिंदी
یہ سر بلند ہوتے ہی شانے سے کٹ گیا | شیح شیری
ye sar-buland hote hi shane se kaT gaya

غزل

یہ سر بلند ہوتے ہی شانے سے کٹ گیا

منور رانا

;

یہ سر بلند ہوتے ہی شانے سے کٹ گیا
میں محترم ہوا تو زمانے سے کٹ گیا

ماں آج مجھ کو چھوڑ کے گاؤں چلی گئی
میں آج اپنے آئینہ خانے سے کٹ گیا

جوڑے کی شان بڑھ گئی محفل مہک اٹھی
لیکن یہ پھول اپنے گھرانے سے کٹ گیا

اے آنسوؤ تمہاری ضرورت ہے اب مجھے
کچھ میل تو بدن کا نہانے سے کٹ گیا

اس پیڑ سے کسی کو شکایت نہ تھی مگر
یہ پیڑ صرف بیچ میں آنے سے کٹ گیا

ورنہ وہی اجاڑ حویلی سی زندگی
تم آ گئے تو وقت ٹھکانے سے کٹ گیا