EN हिंदी
وہ سانحہ ہوا تھا کہ بس دل دہل گئے! | شیح شیری
wo saneha hua tha ki bas dil dahal gae!

غزل

وہ سانحہ ہوا تھا کہ بس دل دہل گئے!

ذالفقار احمد تابش

;

وہ سانحہ ہوا تھا کہ بس دل دہل گئے!
اک شب میں سارے شہر کے چہرے بدل گئے

نیرنگئ نظر پس آئینہ خوب تھی
باہر نکل کے دیکھا تو منظر بدل گئے

مٹی میں ماہتاب کی خوشبو کا بھید تھا
کس جستجو میں ہم لب بام ازل گئے

باراں کی التجاؤں میں وقف دعا تھے جو
پیڑوں کے ہاتھ دھوپ کی زد میں پگھل گئے

گھلنے لگی ہیں جیسے رگ جاں میں ٹھنڈکیں
کیا دیکھتے ہی دیکھتے موسم بدل گئے