وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے
کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے
نظر وہ ہے جو اس کون و مکاں سے پار ہو جائے
مگر جب روئے تاباں پر پڑے بے کار ہو جائے
تبسم کی ادا سے زندگی بیدار ہو جائے
نظر سے چھیڑ دے رگ رگ مری ہشیار ہو جائے
تجلی چہرۂ زیبا کی ہو کچھ جام رنگیں کی
زمیں سے آسماں تک عالم انوار ہو جائے
تم اس کافر کا ذوق بندگی اب پوچھتے کیا ہو
جسے طاق حرم بھی ابروئے خم دار ہو جائے
سحر لائے گی کیا پیغام بیداری شبستاں میں
نقاب رخ الٹ دو خود سحر بیدار ہو جائے
یہ اقرار خودی ہے دعوئ ایمان و دیں کیسا
ترا اقرار جب ہے خود سے بھی انکار ہو جائے
نظر اس حسن پر ٹھہرے تو آخر کس طرح ٹھہرے
کبھی خود پھول بن جائے کبھی رخسار ہو جائے
کچھ ایسا دیکھ کر چپ ہوں بہار عالم امکاں
کوئی اک جام پی کر جس طرح سرشار ہو جائے
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
غزل
وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے
اصغر گونڈوی