EN हिंदी
وہ ایک نام جو دریا بھی ہے کنارا بھی | شیح شیری
wo ek nam jo dariya bhi hai kinara bhi

غزل

وہ ایک نام جو دریا بھی ہے کنارا بھی

اسعد بدایونی

;

وہ ایک نام جو دریا بھی ہے کنارا بھی
رہا ہے اس سے بہت رابطہ ہمارا بھی

چمن وہی کہ جہاں پر لبوں کے پھول کھلیں
بدن وہی کہ جہاں رات ہو گوارا بھی

ہمیں بھی لمحۂ رخصت سے ہول آتا ہے
جدا ہوا ہے کوئی مہرباں ہمارا بھی

علامت شجر سایہ دار بھی وہ جسم
خرابی دل و دیدہ کا استعارہ بھی

افق تھکن کی ردا میں لپٹتا جاتا ہے
سو ہم بھی چپ ہیں اور اس شام کا ستارا بھی