EN हिंदी
ویران سراۓ کا دیا ہے | شیح شیری
viran sarae ka diya hai

غزل

ویران سراۓ کا دیا ہے

عبید اللہ علیم

;

ویران سراۓ کا دیا ہے
جو کون و مکاں میں جل رہا ہے

یہ کیسی بچھڑنے کی سزا ہے
آئینے میں چہرہ رکھ گیا ہے

خورشید مثال شخص کل شام
مٹی کے سپرد کر دیا ہے

تم مر گئے حوصلہ تمہارا
زندہ ہوں میں یہ میرا حوصلہ ہے

اندر بھی اس زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

میں کون سا خواب دیکھتا ہوں
یہ کون سے ملک کی فضا ہے

وہ کون سا ہاتھ ہے کہ جس نے
مجھ آگ کو خاک سے لکھا ہے

رکھا تھا خلا میں پاؤں میں نے
رستے میں ستارہ آ گیا ہے

شاید کہ خدا میں اور مجھ میں
اک جست کا اور فاصلہ ہے

گردش میں ہیں کتنی کائناتیں
بچہ مرا پاؤں چل رہا ہے