EN हिंदी
اٹھ کے کپڑے بدل گھر سے باہر نکل جو ہوا سو ہوا | شیح شیری
uTh ke kapDe badal ghar se bahar nikal jo hua so hua

غزل

اٹھ کے کپڑے بدل گھر سے باہر نکل جو ہوا سو ہوا

ندا فاضلی

;

اٹھ کے کپڑے بدل گھر سے باہر نکل جو ہوا سو ہوا
رات کے بعد دن آج کے بعد کل جو ہوا سو ہوا

جب تلک سانس ہے بھوک ہے پیاس ہے یہ ہی اتہاس ہے
رکھ کے کاندھے پہ ہل کھیت کی اور چل جو ہوا سو ہوا

خون سے تر بہ تر کر کے ہر رہ گزر تھک چکے جانور
لکڑیوں کی طرح پھر سے چولھے میں جل جو ہوا سو ہوا

جو مرا کیوں مرا جو لٹا کیوں لٹا جو جلا کیوں جلا
مدتوں سے ہیں گم ان سوالوں کے حل جو ہوا سو ہوا

مندروں میں بھجن مسجدوں میں اذاں آدمی ہے کہاں
آدمی کے لیے ایک تازہ غزل جو ہوا سو ہوا