EN हिंदी
عمر بھر ہم رہے شرابی سے | شیح شیری
umr bhar hum rahe sharabi se

غزل

عمر بھر ہم رہے شرابی سے

میر تقی میر

;

عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دل پرخوں کی اک گلابی سے

جی ڈھا جائے ہے سحر سے آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

برقعہ اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے