EN हिंदी
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ | شیح شیری
ulTe wo shikwe karte hain aur kis ada ke sath

غزل

الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ

مومن خاں مومن

;

الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ

بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ

بے پردہ غیر پاس اسے بیٹھا نہ دیکھتے
اٹھ جاتے کاش ہم بھی جہاں سے حیا کے ساتھ

وہ لالہ رو گیا نہ ہو گلگشت باغ کو
کچھ رنگ بوئے گل کے عوض ہے صبا کے ساتھ

اس کی گلی کہاں یہ تو کچھ باغ خلد ہے
کس جاے مجھ کو چھوڑ گئی موت لا کے ساتھ

آتی ہے بوئے داغ شب تار ہجر میں
سینہ بھی چاک ہو نہ گیا ہو قبا کے ساتھ

گلبانگ کس کا مشورۂ قتل ہو گیا
کچھ آج بوئے خوں ہے وہاں کی ہوا کے ساتھ

تھے وعدے سے پھر آنے کے خوش یہ خبر نہ تھی
ہے اپنی زندگانی اسی بے وفا کے ساتھ

کوچہ سے اپنے غیر کا منہ ہے مٹا سکے
عاشق کا سر لگا ہے ترے نقش پا کے ساتھ

اللہ رے گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ