EN हिंदी
ترے ناز و ادا کو تیرے دیوانے سمجھتے ہیں | شیح شیری
tere naz-o-ada ko tere diwane samajhte hain

غزل

ترے ناز و ادا کو تیرے دیوانے سمجھتے ہیں

ذکی کاکوروی

;

ترے ناز و ادا کو تیرے دیوانے سمجھتے ہیں
حقیقت شمع کی کیا ہے یہ پروانے سمجھتے ہیں

مکمل وارداتیں ہیں مرے گزرے زمانے کی
حقائق سے جو ناواقف ہیں افسانے سمجھتے ہیں

جنوں کے کیف و کم سے آگہی تجھ کو نہیں ناصح
گزرتی ہے جو دیوانوں پہ دیوانے سمجھتے ہیں

تری مخمور آنکھوں کو کوئی کچھ بھی کہے لیکن
ہم ان کو ساقیٔ دوراں کے پیمانے سمجھتے ہیں

نہ راس آئیں گی مجھ کو اے جہاں آبادیاں تیری
مرے دل کی لگی کو تیرے ویرانے سمجھتے ہیں

نہ کچھ اہل جنوں سمجھے نہ کچھ اہل خرد سمجھے
رموز زندگی کچھ پھر بھی مستانے سمجھتے ہیں

ذکیؔ اپنوں نے تو ہم کو ہمیشہ ہی ستایا ہے
حقیقت کچھ ہماری پھر بھی بے گانے سمجھتے ہیں