EN हिंदी
تھا اجل کا میں اجل کا ہو گیا | شیح شیری
tha ajal ka main ajal ka ho gaya

غزل

تھا اجل کا میں اجل کا ہو گیا

شاد عظیم آبادی

;

تھا اجل کا میں اجل کا ہو گیا
بیچ میں چونکا تو تھا پھر سو گیا

لطف تو یہ ہے کہ آپ اپنا نہیں
جو ہوا تیرا وہ تیرا ہو گیا

کاٹے کھاتی ہے مجھے ویرانگی
کون اس مدفن پہ آ کر رو گیا

بحر ہستی کے عمق کو کیا بتاؤں
ڈوب کر میں شادؔ اس میں کھو گیا