EN हिंदी
تیری زلفیں غیر اگر سلجھائے گا | شیح شیری
teri zulfen ghair agar suljhaega

غزل

تیری زلفیں غیر اگر سلجھائے گا

شاد عظیم آبادی

;

تیری زلفیں غیر اگر سلجھائے گا
آنکھ والوں سے نہ دیکھا جائے گا

سب طرح کی سختیاں سہہ جائے گا
کیوں دلا تو بھی کبھی کام آئے گا

ایک دن ایسا بھی ناصح آئے گا
غم کو میں اور غم مجھے کھا جائے گا

اے فلک ایسا بھی اک دن آئے گا
جب کیے پر اپنے تو پچھتائے گا

وصل میں دھڑکا ہے ناحق ہجر کا
وہ دن آئیں گے تجھے سمجھائے گا

آ چکے احباب اٹھانے میری لاش
ناز اس کو دیکھیے کب لائے گا

چوٹ کھائے دل کا ماتم دار ہے
میرا نالہ بھی تڑپتا جائے گا

چھوڑ دے ہم وحشیوں کو اے غبار
پیچھے پیچھے تو کہاں تک آئے گا

منتظر ہے جان بر لب آمدہ
دیکھیے کب پھر کے قاصد آئے گا

ہجر میں نالے غنیمت جان لے
پھر تو خود اے ضعف تو پچھتائے گا

نیم کشتہ ہیں تو ہیں پھر کیا کریں
کچھ اگر بولیں تو وہ شرمائے گا

جوش وحشت تجھ پہ صدقے اپنی جان
کون تلوے اس طرح سہلائے گا

اور بھی تڑپا دیا غم خوار نے
خود ہے وحشی کیا مجھے بہلائے گا

راہرو تجھ سا کہاں اے خضر شوق
کون تیری خاک پا کو پائے گا

باغ میں کیا جائیں آتی ہے خزاں
گل کا اترا منہ نہ دیکھا جائے گا

میری جاں میں کیا کروں گا کچھ بتا
جب تصور رات بھر تڑپائے گا

کیوں نہ میں مشتاق ناصح کا رہوں
نام تیرا اس کے لب پر آئے گا

دل کے ہاتھوں روح اگر گھبرا گئی
کون اس وحشی کو پھر بہلائے گا

کھو گئے ہیں دونوں جانب کے سرے
کون دل کی گتھیاں سلجھائے گا

میں کہاں واعظ کہاں توبہ کرو
جو نہ سمجھا خود وہ کیا سمجھائے گا

تھک کے آخر بیٹھ جائے گا غبار
کارواں منہ دیکھ کر رہ جائے گا

دل کے ہاتھوں سے جو گھبراؤگے شادؔ
کون اس وحشی کو پھر سمجھائے گا

کم نہ سمجھو شوق کو اے شادؔ تم
اک نہ اک بڑھ کے یہ آفت لائے گا

ہے خزاں گل گشت کو جاؤ نہ شادؔ
گریۂ شبنم نہ دیکھا جائے گا

کچھ نہ کہنا شادؔ سے حال خزاں
اس خبر کو سنتے ہی مر جائے گا