EN हिंदी
ٹیک لگا کر بیٹھا ہوں میں جس بوڑھی دیوار کے ساتھ | شیح شیری
Tek laga kar baiTha hun main jis buDhi diwar ke sath

غزل

ٹیک لگا کر بیٹھا ہوں میں جس بوڑھی دیوار کے ساتھ

ذوالفقار نقوی

;

ٹیک لگا کر بیٹھا ہوں میں جس بوڑھی دیوار کے ساتھ
خوف ہے مجھ کو مٹ نہ جاؤں اس کے ہر آثار کے ساتھ

غازہ پاؤڈر مل کر میں بھی آ جاتا ہوں سرخی میں
بک جاتا ہے چہرہ میرا سستے سے اخبار کے ساتھ

کیوں نہ بڑھ کر میں پی جاؤں تیرے نقلی سب تریاک
پھر تو دھوکا کر نہ پائے بستی میں بیمار کے ساتھ

ہوش کے ناخن لے تو سائیں کیوں یہ غوغا ڈالا ہے
دیکھ نہیں اب لے یہ چلتی نغمۂ دربار کے ساتھ

کس نے تجھ کو سونپی بھائی سرداری اس بستی کی
سب کے سب محشور یہ ہوں گے اپنے اپنے یار کے ساتھ

عمر تمامی شوق سے ہم نے ایک ہی تتلی پالی تھی
جب جب اس کو خواب میں دیکھا اڑتی ہے اغیار کے ساتھ