تمام عمر نمک خوار تھے زمیں کے ہم
وفا سرشت میں تھی ہو رہے یہیں کے ہم
نکل کے روح ڈنواڈول ہو نہ جائے کہیں
ہزار حیف نہ دنیا کے ہیں، نہ دیں کے ہم
نظر اٹھا کے نہ دیکھا کسی طرف تا عمر
رہے خیال میں اک چشم سرمہ گیں کے ہم
زمیں چھڑائی گئی ہم سے جب بنا کر خاک
یہاں پہ کیا نہ رہے اے صبا کہیں کے ہم
یہاں مکاں ہے تو کیوں آسماں کی سیر کریں
مکیں ہیں شادؔ ازل سے اسی زمیں کے ہم
زمانہ شادؔ ہمیں کیوں بھلا نہیں دیتا
نہ ہجو کے نہ سزاوار آفریں کے ہم
غزل
تمام عمر نمک خوار تھے زمیں کے ہم
شاد عظیم آبادی