EN हिंदी
تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیں | شیح شیری
tab nahin sukun nahin dil nahin ab jigar nahin

غزل

تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیں

نوح ناروی

;

تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیں
اپنی نظر کدھر اٹھے کوئی ادھر ادھر نہیں

روز شب اٹھتے بیٹھتے ان کی زبان پر نہیں
کوئی نہیں کی حد نہیں شام نہیں سحر نہیں

کوئی یہاں سے چل دیا رونق بام و در نہیں
دیکھ رہا ہوں گھر کو میں گھر ہے مگر وہ گھر نہیں

اتنی خبر تو ہے ضرور لے گئے دل وہ چھین کر
کیا ہوا اس کا پھر مآل اس کی مجھے خبر نہیں

کیوں وہ ادھر ادھر پھرے کیوں یہ حدود میں رہے
تیری نظر تو ہے نظر میری نظر نظر نہیں

مجھ سے بگڑ کر اپنے گھر جائیے خیر جائیے
آپ نے یہ سمجھ لیا آہ میں کچھ اثر نہیں

دیر کو ہم گھٹائیں کیوں کعبہ کو ہم بڑھائیں کیوں
کیا ہے خدا کا گھر یہی کیا وہ خدا کا گھر نہیں

پردے سے باہر آئیے رخ سے نقاب اٹھائیے
تاب جمال لا سکے اتنی مری نظر نہیں

مجھ کو خیال روز و شب خاک رہے مزار میں
ایسی جگہ ہوں جس جگہ شام نہیں سحر نہیں

تیغ کہو سناں کہو قہر کہو بلا کہو
اہل نظر کی راے میں ان کی نظر نظر نہیں

ڈر گئے اہل انجمن تیر جو آپ کا چلا
اس نے کہا ادھر نہیں اس نے کہا ادھر نہیں

روز کے غم نے اس طرح خوگر ضبط غم کیا
درد ہمارے دل میں ہے شکوہ زبان پر نہیں

پوچھتے ہیں وہ حال دل طول سخن سے فائدہ
سو کی یہ ایک بات ہے کہہ دوں مجھے خبر نہیں

ان میں کچھ اور بات تھی ان میں کچھ اور بات ہے
حضرت نوحؔ کا گماں حضرت نوح پر نہیں