EN हिंदी
سیاہ کار سیہ رو خطا شعار آیا | شیح شیری
siyahkar siyah-ru KHata-shiar aaya

غزل

سیاہ کار سیہ رو خطا شعار آیا

شاد عظیم آبادی

;

سیاہ کار سیہ رو خطا شعار آیا
تری جناب میں تیرا گناہ گار آیا

خزاں کا دور گیا موسم بہار آیا
مگر نہ اس دل بے صبر کو قرار آیا

کہیں جواب نہ تو نے دیا یہاں کے سوا
جہاں میں یوں تو بہت میں تجھے پکار آیا

سرائے دہر میں چھوڑا تن کثیف اپنا
یہ بوجھ سر سے مسافر ترا اتار آیا

ہمارے نالۂ دل کا نہ پوچھئے احوال
گلی سے یار کی ہمت بھی اب کے ہار آیا

پڑی جو قیس کے اوپر نظر بیاباں میں
مجھے غریب کے اوپر غضب کا پیار آیا

نہ اپنے پاؤں سے آنا ملا گلی میں تری
یہاں بھی چار کے کاندھوں پہ میں سوار آیا

یہ اضطراب ہے کیوں ہے کدھر کا قصد اے روح
کہاں سے آئی طلب کس جگہ سے تار آیا

برا خزاں کا ہو دیکھے جو سوکھے سوکھے ہونٹ
غریب پھول پہ مجھ کو غضب کا پیار آیا

مری نہ پوچھ کہ تیری گلی میں خاک ہوں میں
تجھی کو میری وفا کا نہ اعتبار آیا

لحد نے کھول کے آغوش دی جگہ جو مجھے
لپٹ کے رہ گئے ہم کو بھی خوب پیار آیا

یقین جان لے ساقی کہ خم کی خیر نہیں
خدا نہ کردہ جو اب کے مجھے خمار آیا

مرے نصیب کہاں اس طرح کے دیدۂ تر
سنوں یہ خوش خبری کان سے کہ یار آیا

نگہ نے ان کی جہاں صید نو کو تاک لیا
ادا نے ان کی کہا لے نیا شکار آیا

ترے فراق کے خوگر نہ مر مٹے جب تک
قضا کے آنے کا تب تک نہ اعتبار آیا

دلا پلٹ گیا قسمت کا پہلے ہی پاسا
اب اپنی جیت کہاں دل جب اپنا ہار آیا

جب اختیار چمن پر نہیں تو ہم کو کیا
ہزار بار اگر موسم بہار آیا

شکایت دل مضطر کہاں تلک اے موت
دعائیں دوں گا تجھے گر اسے قرار آیا

جواب خط کا نہ قاصد سے ماجرا پوچھو
ہے صاف چہرہ سے ظاہر کہ شرمسار آیا

نظر میں پھر گئی چال آپ کی جوانی کی
جو لڑکھڑاتا ہوا کوئی بادہ خوار آیا

جو مانگتے تو ہمیں باغباں سے کیا ملتا
غریب پھول تو دامن کو بھی پسار آیا

نہ اپنے نالۂ دل کو ملا جواب کہیں
نکل کے دل سے تجھے عرش تک پکار آیا

عدم میں شادؔ کو کیا ولولہ ہو جنت کا
کہ یہ غریب تو ہستی سے دل کو مار آیا