EN हिंदी
سکۂ داغ جنوں ملتے جو دولت مانگتا | شیح شیری
sikka-e-dagh-e-junun milte jo daulat mangta

غزل

سکۂ داغ جنوں ملتے جو دولت مانگتا

آغا اکبرآبادی

;

سکۂ داغ جنوں ملتے جو دولت مانگتا
تنگ کرتی مفلسی گر میں فراغت مانگتا

رنج سے فرصت نہ ملتی میں جو راحت مانگتا
بوجھ ہوتا سر پہ گر قاروں کی دولت مانگتا

گر مجھے ہوتی خبر میرا مسیحا آئے گا
اے اجل اک دم کی میں بھی تجھ سے مہلت مانگتا

خضر کی سی زندگی ہوتی جو مجھ ناکام کی
میں دعائے وصل جاناں تا قیامت مانگتا

اشک کے دریا نے رکھ لی آبرو اے چشم تر
مرتے دم دو گز زمین کیا بہر تربت مانگتا

کس کی آمد آمد اپنے کلبۂ احزاں میں ہے
پیشوائی کو ہے دل پہلو سے رخصت مانگتا

در گزرتا جان تک کرتا زمیں اوس سے عزیز
مجھ سے دربان در جاناں جو رشوت مانگتا

نزع تک دیدار کی حسرت رہی مشتاق کو
اے مسیحا مر گیا بیمار شربت مانگتا

در بدر پھرنے نے میری قدر کھوئی اے فلک
ان کے دل میں ہے جگہ ملتی جو خلوت مانگتا

منتیں کر کے چھڑاتا بلبلوں کو دام سے
میں زر گل دیتا اگر صیاد قیمت مانگتا

آدمیت سے ہیں دور ان زاہدوں کے قول و فعل
حق موروثی تھا میرا کیوں میں جنت مانگتا

جان دی ناحق کو مکارہ کے دم میں آن کر
کوہ کن شیریں سے محنت کی جو اجرت مانگتا

قصد کرتا گر بلندی کا تو پستی دیکھتا
کند ہو جاتی طبیعت گر میں جودت مانگتا

زلف کے جنجال میں پھنسنے کی خود کرتا دعا
میں سڑی تھا جو خدا سے اپنی شامت مانگتا

قائل اپنی گفتگو سے خاص کا ہوتا کلیم
سعدیٔ شیراز بھی مجھ سے فصاحت مانگتا

یار ہوتا باغ ہوتا ایسے گر ہوتے نصیب
مے کشی کی محتسب سے میں اجازت مانگتا

دشت وحشت خیز میں عریاں ہے آغاؔ آپ ہی
قاصد جاناں کو کیا دیتا جو خلعت مانگتا