EN हिंदी
شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا | شیح شیری
shab ko meri chashm-e-hasrat ka sab dard-e-dil un se kah jaana

غزل

شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا

شاد عظیم آبادی

;

شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا
دانتوں میں دبا کر ہونٹ اپنا کچھ سوچ کے اس کا رہ جانا

مے خانہ میں آنا زاہد کا پھر در پہ ٹھٹک کر رہ جانا
ساقی کے اشاروں کا مستوں کچھ کان میں سب کے کہہ جانا

اے یاس نہ مانوں گا تیری بس دل کو زیادہ اب نہ دکھا
سمجھا چکی اس کی پہیلی نگہ دکھ درد جو ہو وہ سہہ جانا

مانا کہ فقط موہوم سہی ملنے کی ہمیں اک آس تو ہے
دیدار تو ہو لے دیدۂ تر بہنا ہو اگر تب بہہ جانا

نالے ہوں کہ آہیں اے شب غم جب آ گئیں لب پر صبر کیا
سہنے کو تو سب کچھ دل نے سہا سہنے کی طرح کب سہہ جانا

بنیاد جمانے میں جن کی کیا کچھ نہ بہا تھا خون جگر
اے وا اسفا ان محلوں کا اک چشم زدن میں ڈھ جانا

شب کو وہ ہتھیلی سے ان کا شرما کے چھپانا آنکھوں کو
برچھی کا ادا کی چل جانا اس تیر نظر کا رہ جانا

اترے نہ کسی کے جب دل میں اس بات کا حاصل کیا واعظ
کہنے کو کہی یوں اپنی سی افسوس نہ تو نے کہہ جانا

ہم باغ میں ناحق آئے تھے بلبل کی حکایت کیا کہئے
منقار کو رکھ کر کلیوں پر کچھ اپنی زباں میں کہہ جانا

سن لیں دل ناداں کی باتیں بیکار بگاڑیں کام اپنا
وہ ظلم کریں ہم پر کہ ستم اے شادؔ ہمیں تو سہہ جانا