EN हिंदी
شاخ گل ہے کہ یہ تلوار کھنچی ہے یارو | شیح شیری
shaKH-e-gul hai ki ye talwar khinchi hai yaro

غزل

شاخ گل ہے کہ یہ تلوار کھنچی ہے یارو

علی سردار جعفری

;

شاخ گل ہے کہ یہ تلوار کھنچی ہے یارو
باغ میں کیسی ہوا آج چلی ہے یارو

کون ہے خوف زدہ جشن سحر سے پوچھو
رات کی نبض تو اب چھوٹ چلی ہے یارو

تاک کے دل سے دل شیشہ و پیمانہ تک
ایک اک بوند میں سو شمع جلی ہے یارو

چوم لینا لب لعلیں کا ہے رندوں کو روا
رسم یہ بادۂ گلگوں سے چلی ہے یارو

صرف اک غنچہ سے شرمندہ ہے عالم کی بہار
دل خوں گشتہ کے ہونٹوں پہ ہنسی ہے یارو

وہ جو انگور کے خوشوں میں تھی مانند نجوم
ڈھل کے اب جام میں خورشید بنی ہے یارو

بوئے خوں آتی ہے ملتا ہے بہاروں کا سراغ
جانے کس شوخ ستم گر کی گلی ہے یارو

یہ زمیں جس سے ہے ہم خاک نشینوں کا عروج
یہ زمیں چاند ستاروں میں گھری ہے یارو

جرعۂ تلخ بھی ہے جام گوارا بھی ہے
زندگی جشن گہہ بادہ کشی ہے یارو