EN हिंदी
سراسر نفع تھا لیکن خسارہ جا رہا ہے | شیح شیری
sarasar nafa tha lekin KHasara ja raha hai

غزل

سراسر نفع تھا لیکن خسارہ جا رہا ہے

سلیم کوثر

;

سراسر نفع تھا لیکن خسارہ جا رہا ہے
تو کیا جیتی ہوئی بازی کو ہارا جا رہا ہے

سفر آغاز کرنا تھا جہاں سے زندگی کا
ہمیں ان راستوں سے اب گزارا جا رہا ہے

یہ کن کے پاس گروی رکھ دیا ہم نے سمندر
یہ کن لوگوں کو ساحل پر اتارا جا رہا ہے

اسے جو بھی ملا بچ کر نہیں آیا ابھی تک
مگر جو بچ گیا ملنے دوبارہ جا رہا ہے

سلیمؔ اک آخری مضمون باقی تھا کہ چھپنے
مری رسوائی کا تازہ شمارہ جا رہا ہے