سراسر نفع تھا لیکن خسارہ جا رہا ہے
تو کیا جیتی ہوئی بازی کو ہارا جا رہا ہے
سفر آغاز کرنا تھا جہاں سے زندگی کا
ہمیں ان راستوں سے اب گزارا جا رہا ہے
یہ کن کے پاس گروی رکھ دیا ہم نے سمندر
یہ کن لوگوں کو ساحل پر اتارا جا رہا ہے
اسے جو بھی ملا بچ کر نہیں آیا ابھی تک
مگر جو بچ گیا ملنے دوبارہ جا رہا ہے
سلیمؔ اک آخری مضمون باقی تھا کہ چھپنے
مری رسوائی کا تازہ شمارہ جا رہا ہے
غزل
سراسر نفع تھا لیکن خسارہ جا رہا ہے
سلیم کوثر