EN हिंदी
سر اٹھانے کی تو ہمت نہیں کرنے والے | شیح شیری
sar uThane ki to himmat nahin karne wale

غزل

سر اٹھانے کی تو ہمت نہیں کرنے والے

نادم ندیم

;

سر اٹھانے کی تو ہمت نہیں کرنے والے
یہ جو مردہ ہیں بغاوت نہیں کرنے والے

مفلسی لاکھ سہی ہم میں وہ خودداری ہے
حاکم وقت کی خدمت نہیں کرنے والے

ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے

ہاتھ آندھی سے ملا آئے اسی دور کے لوگ
یہ چراغوں کی حفاظت نہیں کرنے والے

عشق ہم کو یہ نبھانا ہے تو جو رکھ شرطیں
ہم کسی شرط پہ حجت نہیں کرنے والے

پھوڑ کر سر ترے در پر یہیں مر جائیں گے
ہم ترے شہر سے ہجرت نہیں کرنے والے