EN हिंदी
سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں | شیح شیری
saKHtiyan karta hun dil par ghair se ghafil hun main

غزل

سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں

علامہ اقبال

;

سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں جاہل ہوں میں

میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں

علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست
وائے محرومی خذف چین لب ساحل ہوں میں

ہے مری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل
جس کی غفلت کو ملک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں

بزم ہستی اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو
تو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں