سفر کی ابتدا ہوئی کہ تیرا دھیان آ گیا
مری زمیں کے سامنے اک آسمان آ گیا
یہ فیصلہ ہوا مری شناخت آئینہ کرے
مگر یہ کس کا عکس ہے جو درمیان آ گیا
عجیب الجھنوں میں اب کے ساعتیں گزر گئیں
نصاب یاد بھی نہیں اور امتحان آ گیا
حصار سیل آب سے تو ناؤ بچ گئی مگر
ہوا کے ہاتھ ساحلوں پہ بادبان آ گیا
نگاہ اور راستے کے دکھ تو روشنی سے تھے
چراغ بجھ گئے تو میرا میہمان آ گیا
تری صدا پہ مجھ کو لوٹنا تھا جنگ چھوڑ کر
مگر وہ ایک تیر جو سر کمان آ گیا
میں بام و در سے پوچھ آؤں کوئی آیا تو نہیں
سلیمؔ رات ڈھل گئی مرا مکان آ گیا
غزل
سفر کی ابتدا ہوئی کہ تیرا دھیان آ گیا
سلیم کوثر