EN हिंदी
سفر کی ابتدا ہوئی کہ تیرا دھیان آ گیا | شیح شیری
safar ki ibtida hui ki tera dhyan aa gaya

غزل

سفر کی ابتدا ہوئی کہ تیرا دھیان آ گیا

سلیم کوثر

;

سفر کی ابتدا ہوئی کہ تیرا دھیان آ گیا
مری زمیں کے سامنے اک آسمان آ گیا

یہ فیصلہ ہوا مری شناخت آئینہ کرے
مگر یہ کس کا عکس ہے جو درمیان آ گیا

عجیب الجھنوں میں اب کے ساعتیں گزر گئیں
نصاب یاد بھی نہیں اور امتحان آ گیا

حصار سیل آب سے تو ناؤ بچ گئی مگر
ہوا کے ہاتھ ساحلوں پہ بادبان آ گیا

نگاہ اور راستے کے دکھ تو روشنی سے تھے
چراغ بجھ گئے تو میرا میہمان آ گیا

تری صدا پہ مجھ کو لوٹنا تھا جنگ چھوڑ کر
مگر وہ ایک تیر جو سر کمان آ گیا

میں بام و در سے پوچھ آؤں کوئی آیا تو نہیں
سلیمؔ رات ڈھل گئی مرا مکان آ گیا