EN हिंदी
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں | شیح شیری
sabhi kuchh hai tera diya hua sabhi rahaten sabhi kulfaten

غزل

سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں

فیض احمد فیض

;

سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں

جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں نہ کسی صنم کی مروتیں

چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں
یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں

مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں