EN हिंदी
سبب وہ پوچھ رہے ہیں اداس ہونے کا | شیح شیری
sabab wo puchh rahe hain udas hone ka

غزل

سبب وہ پوچھ رہے ہیں اداس ہونے کا

راحتؔ اندوری

;

سبب وہ پوچھ رہے ہیں اداس ہونے کا
مرا مزاج نہیں بے لباس ہونے کا

نیا بہانہ ہے ہر پل اداس ہونے کا
یہ فائدہ ہے ترے گھر کے پاس ہونے کا

مہکتی رات کے لمحو نظر رکھو مجھ پر
بہانا ڈھونڈ رہا ہوں اداس ہونے کا

میں تیرے پاس بتا کس غرض سے آیا ہوں
ثبوت دے مجھے چہرہ شناس ہونے کا

مری غزل سے بنا ذہن میں کوئی تصویر
سبب نہ پوچھ مرے دیوداس ہونے کا

کہاں ہو آؤ مری بھولی بسری یادو آؤ
خوش آمدید ہے موسم اداس ہونے کا

کئی دنوں سے طبیعت مری اداس نہ تھی
یہی جواز بہت ہے اداس ہونے کا

میں اہمیت بھی سمجھتا ہوں قہقہوں کی مگر
مزا کچھ اپنا الگ ہے اداس ہونے کا

مرے لبوں سے تبسم مذاق کرنے لگا
میں لکھ رہا تھا قصیدہ اداس ہونے کا

پتہ نہیں یہ پرندے کہاں سے آ پہنچے
ابھی زمانہ کہاں تھا اداس ہونے کا

میں کہہ رہا ہوں کہ اے دل ادھر ادھر نہ بھٹک
گزر نہ جائے زمانہ اداس ہونے کا