EN हिंदी
سب لوگ لیے سنگ ملامت نکل آئے | شیح شیری
sab log liye sang-e-malamat nikal aae

غزل

سب لوگ لیے سنگ ملامت نکل آئے

احمد فراز

;

سب لوگ لیے سنگ ملامت نکل آئے
کس شہر میں ہم اہل محبت نکل آئے

اب دل کی تمنا ہے تو اے کاش یہی ہو
آنسو کی جگہ آنکھ سے حسرت نکل آئے

ہر گھر کا دیا گل نہ کرو تم کہ نہ جانے
کس بام سے خورشید قیامت نکل آئے

جو درپئے پندار ہیں ان قتل گہوں سے
جاں دے کے بھی سمجھو کہ سلامت نکل آئے

اے ہم نفسو کچھ تو کہو عہد ستم کی
اک حرف سے ممکن ہے حکایت نکل آئے

یارو مجھے مصلوب کرو تم کہ مرے بعد
شاید کہ تمہارا قد و قامت نکل آئے