EN हिंदी
سب آسان ہوا جاتا ہے | شیح شیری
sab aasan hua jata hai

غزل

سب آسان ہوا جاتا ہے

شارق کیفی

;

سب آسان ہوا جاتا ہے
مشکل وقت تو اب آیا ہے

جس دن سے وہ جدا ہوا ہے
میں نے جسم نہیں پہنا ہے

کوئی دراڑ نہیں ہے شب میں
پھر یہ اجالا سا کیسا ہے

برسوں کا بچھڑا ہوا سایہ
اب آہٹ لے کر لوٹا ہے

اپنے آپ سے ڈرنے والا
کس پہ بھروسہ کر سکتا ہے

ایک محاذ پہ ہارے ہیں ہم
یہ رشتہ کیا کم رشتہ ہے

قرب کا لمحہ تو یاروں کو
چپ کرنے میں گزر جاتا ہے

سورج سے شرطیں رکھتا ہوں
گھر میں چراغ نہیں جلتا ہے

دکھ کی بات تو یہ ہے شارقؔ
اس کا وہم بھی سچ نکلا ہے