EN हिंदी
روز کہاں سے کوئی نیاپن اپنے آپ میں لائیں گے | شیح شیری
roz kahan se koi naya-pan apne aap mein laenge

غزل

روز کہاں سے کوئی نیاپن اپنے آپ میں لائیں گے

بشر نواز

;

روز کہاں سے کوئی نیاپن اپنے آپ میں لائیں گے
تم بھی تنگ آ جاؤ گے اک دن ہم بھی اکتا جائیں گے

چڑھتا دریا ایک نہ اک دن خود ہی کنارے کاٹے گا
اپنے ہنستے چہرے کتنے طوفانوں کو چھپائیں گے

آگ پہ چلتے چلتے اب تو یہ احساس بھی کھو بیٹھے
کیا ہوگا زخموں کا مداوا دامن کیسے بچائیں گے

وہ بھی کوئی ہم ہی سا معصوم گناہوں کا پتلا تھا
ناحق اس سے لڑ بیٹھے تھے اب مل جائے منائیں گے

اس جانب ہم اس جانب تم بیچ میں حائل ایک الاؤ
کب تک ہم تم اپنے اپنے خوابوں کو جھلسائیں گے

سرما کی رت کاٹ کے آنے والے پرندو یہ تو کہو
دور دیس کو جانے والے کب تک لوٹ کے آئیں گے

تیز ہوائیں آنکھوں میں تو ریت دکھوں کی بھر ہی گئیں
جلتے لمحے رفتہ رفتہ دل کو بھی جھلسائیں گے

محفل محفل اپنا تعلق آج ہے اک موضوع سخن
کل تک ترک تعلق کے بھی افسانے بن جائیں گے