EN हिंदी
رونقیں اب بھی کواڑوں میں چھپی لگتی ہیں | شیح شیری
raunaqen ab bhi kiwaDon mein chhupi lagti hain

غزل

رونقیں اب بھی کواڑوں میں چھپی لگتی ہیں

زہرا نگاہ

;

رونقیں اب بھی کواڑوں میں چھپی لگتی ہیں
محفلیں اب بھی اسی طرح سجی لگتی ہیں

روشنی اب بھی درازوں سے امڈ آتی ہے
کھڑکیاں اب بھی صداؤں سے کھلی لگتی ہیں

ساعتیں جو تری قربت میں گراں گزری تھیں
دور سے دیکھوں تو اب وہ بھی بھلی لگتی ہیں

اب بھی کچھ لوگ سناتے ہیں سنائے ہوئے شعر
باتیں اب بھی تری ذہنوں میں بسی لگتی ہیں