EN हिंदी
رہے نہ ایک بھی بیداد گر ستم باقی | شیح شیری
rahe na ek bhi bedad-gar sitam baqi

غزل

رہے نہ ایک بھی بیداد گر ستم باقی

بھارتیندو ہریش چندر

;

رہے نہ ایک بھی بیداد گر ستم باقی
رکے نہ ہاتھ ابھی تک ہے دم میں دم باقی

اٹھا دوئی کا جو پردا ہماری آنکھوں سے
تو کعبے میں بھی رہا بس وہی صنم باقی

بلا لو بالیں پہ حسرت نہ دل میں میرے رہے
ابھی تلک تو ہے تن میں ہمارے دم باقی

لحد پہ آئیں گے اور پھول بھی اٹھائیں گے
یہ رنج ہے کہ نہ اس وقت ہوں گے ہم باقی

یہ چار دن کے تماشے ہیں آہ دنیا کے
رہا جہاں میں سکندر نہ اور نہ جم باقی

تم آؤ تار سے مرقد پہ ہم قدم چومیں
فقط یہی ہے تمنا تری قسم باقی

رساؔ یہ رنج اٹھایا فراق میں تیرے
رہے جہاں میں نہ آخر کو آہ ہم باقی