EN हिंदी
رات کے بعد نئے دن کی سحر آئے گی | شیح شیری
raat ke baad nae din ki sahar aaegi

غزل

رات کے بعد نئے دن کی سحر آئے گی

ندا فاضلی

;

رات کے بعد نئے دن کی سحر آئے گی
دن نہیں بدلے گا تاریخ بدل جائے گی

ہنستے ہنستے کبھی تھک جاؤ تو چھپ کے رو لو
یہ ہنسی بھیگ کے کچھ اور چمک جائے گی

جگمگاتی ہوئی سڑکوں پہ اکیلے نہ پھرو
شام آئے گی کسی موڑ پہ ڈس جائے گی

اور کچھ دیر یوں ہی جنگ سیاست مذہب
اور تھک جاؤ ابھی نیند کہاں آئے گی

میری غربت کو شرافت کا ابھی نام نہ دے
وقت بدلا تو تری رائے بدل جائے گی

وقت ندیوں کو اچھالے کہ اڑائے پربت
عمر کا کام گزرنا ہے گزر جائے گی