EN हिंदी
رات گہری تھی پھر بھی سویرا سا تھا | شیح شیری
raat gahri thi phir bhi sawera sa tha

غزل

رات گہری تھی پھر بھی سویرا سا تھا

زہرا نگاہ

;

رات گہری تھی پھر بھی سویرا سا تھا
ایک چہرہ کہ آنکھوں میں ٹھہرا سا تھا

بے چراغی سے تیری مرے شہر دل
وادیٔ شعر میں کچھ اجالا سا تھا

میرے چہرے کا سورج اسے یاد ہے
بھولتا ہے پلک پر ستارہ سا تھا

بات کیجے تو کھلتے تھے جوہر بہت
دیکھنے میں تو وہ شخص سادہ سا تھا

صلح جس سے رہی میری تا زندگی
اس کا سارے زمانے سے جھگڑا سا تھا