EN हिंदी
رات بھی نیند بھی کہانی بھی | شیح شیری
raat bhi nind bhi kahani bhi

غزل

رات بھی نیند بھی کہانی بھی

فراق گورکھپوری

;

رات بھی نیند بھی کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی

ایک پیغام زندگانی بھی
عاشقی مرگ ناگہانی بھی

اس ادا کا تری جواب نہیں
مہربانی بھی سرگرانی بھی

دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں
کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی

منصب دل خوشی لٹانا ہے
غم پنہاں کی پاسبانی بھی

دل کو شعلوں سے کرتی ہے سیراب
زندگی آگ بھی ہے پانی بھی

شاد کاموں کو یہ نہیں توفیق
دل غمگیں کی شادمانی بھی

لاکھ حسن یقیں سے بڑھ کر ہے
ان نگاہوں کی بد گمانی بھی

تنگنائے دل ملول میں ہے
بحر ہستی کی بے کرانی بھی

عشق ناکام کی ہے پرچھائیں
شادمانی بھی کامرانی بھی

دیکھ دل کے نگار خانے میں
زخم پنہاں کی ہے نشانی بھی

خلق کیا کیا مجھے نہیں کہتی
کچھ سنوں میں تری زبانی بھی

آئے تاریخ عشق میں سو بار
موت کے دور درمیانی بھی

اپنی معصومیت کے پردے میں
ہو گئی وہ نظر سیانی بھی

دن کو سورج مکھی ہے وہ نو گل
رات کو ہے وہ رات رانی بھی

دل بد نام تیرے بارے میں
لوگ کہتے ہیں اک کہانی بھی

وضع کرتے کوئی نئی دنیا
کہ یہ دنیا ہوئی پرانی بھی

دل کو آداب بندگی بھی نہ آئے
کر گئے لوگ حکمرانی بھی

جور کم کم کا شکریہ بس ہے
آپ کی اتنی مہربانی بھی

دل میں اک ہوک بھی اٹھی اے دوست
یاد آئی تری جوانی بھی

سر سے پا تک سپردگی کی ادا
ایک انداز ترکمانی بھی

پاس رہنا کسی کا رات کی رات
میہمانی بھی میزبانی بھی

ہو نہ عکس جبین ناز کہ ہے
دل میں اک نور کہکشانی بھی

زندگی عین دید یار فراقؔ
زندگی ہجر کی کہانی بھی