EN हिंदी
قیامت کا کوئی ہنگام ابھرے | شیح شیری
qayamat ka koi hangam ubhre

غزل

قیامت کا کوئی ہنگام ابھرے

ذکاء الدین شایاں

;

قیامت کا کوئی ہنگام ابھرے
اجالے ڈوب جائیں شام ابھرے

کسی تلوار کی قاتل زباں پر
لہو چہکے ہمارا نام ابھرے

گرے گلیوں کے قدموں پر اندھیرا
فضا میں روشنئ بام ابھرے

ہیں سطح بحر پر موجیں پریشاں
جو دن ڈوبے تو کوئی شام ابھرے

ہزاروں رنگ پرچم سرنگوں ہیں
وہ ہم ہی تھے کہ بس گم نام ابھرے

ہماری ابتدا مٹی میں اک راز
ہمارے واسطے انجام ابھرے